اس لیے رو رہا تھا میرا اللہ کتنا قدردان‘ میں نے صدق دل سے اس سے مدد مانگی تو میری بڑی ضرورت پوری کرنے کیلئے اپنا ایک بندہ میری مدد کیلئے بھیج دیا‘ آج بروقت میرا قرض ادا ہوا‘ تمہیں پتہ ہے کہ قرض لینے کیلئے کیا کیا مصیبت جھیلتا تھا’ پیدل چلتے چلتے میرے پاؤں چھل جاتے
میرے سسرال والے جدی پشتی زمیندار ہیں‘ ان کا شمار بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے‘ زمیندار بڑا ہو یا چھوٹا یہ بہت قناعت پسند ہوتا ہے‘ اس کا یقین اور بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ ان زمینداروں کی فصلیں پک کرمنڈیوں میں جاتی ہیں‘ فصلیں فروخت ہوتی ہیں تو زمیندار رقم بینک میں جمع نہیں کرواتے بلکہ وہ رقم لے کر گھروں کو لوٹتے ہیں اور اپنے بچوں اور بیوی کی خواہشات پوری کرتے ہیں‘ مگر ایک کام جوفرض سمجھ کر کرتے ہیں وہ یہ کہ رقم ملتے ہی سب سے پہلے کچھ رقم مسجد کو دیتے ہیں‘ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ رقم جب مسجد میں پہنچ جاتی ہے تو باقی رقم میں بہت برکت ہوتی ہے‘ پھریہ جن جن سے ادھار رقم لی ہو ان کا ادھار چکاتے ہیں‘ آج بھی میرے پاس کچھ خواتین اپنے تقاضوں کے ساتھ حاضر تھیں‘ چندخواتین نے اس شرط پر رقم ادھار لی کہ فصل پک کی منڈی جائے گی‘ رقم آئے تو اپنا ادھار چکادیں گے اور یہ لوگ رقم ملتے ہی فوراً ادھار چکا دیتے ہیں۔ ایک کے علاوہ سب خواتین چلی گئیں‘ میں نے پوچھا بہن تمہیں کیا چاہیے؟ اس نے کہا آپ میری بات سنیں اور مولا کے رنگ دیکھیں‘ وہ گویا ہوئی شوہر جب سے نیک کاموں میں مشغول ہوئے ہیں‘ خود بھی اللہ اللہ کرنے لگے ہیں اور دوسروں کو بھی اللہ کی راہ پر لگا رہے ہیں‘ میرے گھر میں برکات آگئیں ہیں‘ آپ سے ادھار رقم لینے کی اب ضرورت نہیں‘ اللہ تعالیٰ غیب سے تمام ضرورتیں پوری کررہا ہے‘ جس نے بھی یقین کے ساتھ اپنی جھولی اس کریم رب کے آگے پھیلادی اور اپنے لب دعاؤں کیلئے کھول دئیے اللہ تعالیٰ اس کا گھر بھر دیتا ہے‘ اس کی خالی جھولی رزق سے بھر دیتا ہے‘ اس کی نسلوں میں برکات آجاتی ہیں‘ چین‘ سکون زندگیوں میں آجاتا ہے‘ ایک دن میرے شوہر کو چالیس ہزار کی ضرورت تھی‘ رات ساڑھے دس بجے یہ رقم ادا کرنی تھی‘ میرے شوہرصاحب نے تسبیح لی اور جائے نماز پر جاکر تسبیح پڑھنے لگے‘ پڑھتے پڑھتے گیارہ بجنے والے ہوگئے اب تو میرے شوہر نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا میرے مالک! میرا وعدہ پورا کردیں‘ یہ کہنا تھا کہ اللہ کی رحمت جوش میں آئی‘ دروازے پر دستک ہوئی‘ میرے سرتاج ہاتھ میں تسبیح پکڑے دروازے پر گئے‘ دروازہ کھولا تو سامنے ایک جاننے والا کھڑا تھا‘ میرے سرتاج نے سلام دعا کے بعد پہلے الفاظ یہی ادا کیے بتا تیری جیب میں اس وقت کتنی رقم ہے؟ اس نے بتایا کہ 38 ہزار ہیں‘ انہوں نے کہا وہ 38ہزار مجھے دے دو‘ دو ہزار کم تھے وہ میں نے پورے کردئیے‘ ابھی رقم گن کر پوری ہی کی کہ دوسری مرتبہ پھر دستک ہوئی‘ اب کی بار دوسرا شخص اپنا قرض لینے کھڑا تھا‘ وہ چالیس ہزار کی رقم اس کے حوالے کردی‘ اب جو میں نے دیکھا تو میرے سرتاج پھر ایک بار جائے نماز پر سجدے میں تھے اور سسکیوں کے ساتھ رو رہے تھے‘ انہیں یوں دیکھا تو واپس آگئی‘ کچھ دیر بعد گئی تو سنبھل چکے تھے‘ رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا اس لیے رو رہا تھا میرا اللہ کتنا قدردان‘ میں نے صدق دل سے اس سے مدد مانگی تو میری بڑی ضرورت پوری کرنے کیلئے اپنا ایک بندہ میری مدد کیلئے بھیج دیا‘ آج بروقت میرا قرض ادا ہوا‘ تمہیں پتہ ہے کہ قرض لینے کیلئے کیا کیا مصیبت جھیلتا تھا’ پیدل چلتے چلتے میرے پاؤں چھل جاتے‘ قر ض داروں کا سامنا کرنامشکل تھا اور آج مجھے قرض گھر آکر دے گیا‘ اسی کا شکرا دا کررہا تھا۔اسی طرح ڈیزل کے ڈرم چاہیے تھے‘ میرے میاں اپنے ڈیرے پر چلے گئے‘ وہاں بیٹھے دعا کررہے تھے اتنے میں ایک بندہ ڈیرے پر آگیا‘ جسے دیکھ کر میرے شوہر مسکرائے‘ اس بندے نے مسکرانے کی وجہ پوچھی‘ اصرار پر اپنی دعا کے متعلق اور اس کے آنے کا بتایا تو اس بندے نے کہا کونسے ڈیرے پر کتنے ڈرم پہنچانے ہیں‘ اس نے فون کیا اور ڈیزل کے ڈرم صرف دس منٹ میں پہنچ گئے۔ گندم کی بیجائی کا موقع تھا‘ گندم کا بیج نہیں تھا‘ اب وہی سوال بیج کہاں سے آئے؟ پھر اللہ تعالیٰ سے لمبی دعائیں‘ اسی دوران نمبردار کسی کام سے آیا‘ اس کی بات سنی اور اپنا مقصد بتایا کہ گندم کا بیج چاہیے‘ نمبردار نے کہا جتنے من بیج چاہیے پہنچادوں گا‘ یوں بیج بھی آگیا۔ میں اب آپ سے صرف ملنے آیا کروں گی رقم ادھار لینے نہیں‘ جو چاہو جتنا چاہو اس سے مانگ لو‘ میں تو اس کے در کی بھکاری بن گئی‘ کوٹھڑی کے کونے میں بیٹھ کر مانگتی ہوں میری خواہشات پوری ہوتی ہیں۔مالدار لوگوں سے ادھار لینے جاتی تو گھنٹوں ان کے دروازوں پر بیٹھنا پڑتا اب یہ ذلالت بھی ختم ہوئی‘ میرے شوہر مسنون دعائیں سیکھ کر آتے ہیں اور مجھے بتاتے ہیں۔ایک مرتبہ کسی کام سے باہر جانے لگے تو پیسے نہیں تھے میں نے مصلے پر بیٹھ مانگا تو ہمسائی آگئی اور کہا بہن یہ رقم ہے میرے پاس فالتو پڑی ہے تم اپنے کسی کام لے آؤ‘ جب تمہارے پاس ہوں گے واپس لے لوں گی۔ یہ باتیں سنائیں اور بولی: اچھا اب میں چلتی ہوں اور میں سوچ میں پڑگئی!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں